سفرکے دوران جو چیز ہماری تکلیف کا باعث ہے وہ ہے اچانک سے ہماری سواری کے ٹائیر کاپھٹ جانا یا پنکچر ہو جانا اور خاص طور پراس وقت یہ چیزبہت اذیت کا باعث بن جاتی ہے جب ہمیں جلد ی میں کہیں پہنچنا ہو خاص طور پر جب ہمیں اپنے گھر پہنچنے کی جلدی ہواور اچانک سے آپ کی سواری کا ٹائیر پنکچر ہو جائے تو جو جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے ۔
کچھ دن پہلے دفتر سے گھر جاتے ہوئے میری گاڑی کا ٹائیر بھی پنکچر ہوگیا ،اُن دنوں میری صحت بھی خاصی خراب رہتی تھی جسم درد کے ساتھ ساتھ بخار بھی رہتا جس وجہ سے بہت دونوں سے آرٹیکل بھی نہ لکھ سکااسی نا ساز حالت میں تھا اور من یہ چاہ رہاتھا کہ جلدی سے گھر پہنچوںاور ماں کو ایک نظر دیکھ کر اُن کی دُعا ئیں لوں ، بچوں پر پیار کی نظر ڈالوں غرض گھر والوں کی سکھ چھایا میں جلدی سے بستر پر سستانے کے لئے لیٹ جائوں پریہ رکاوٹ آنی تھی شاید مجھے ایک درس دینا مقصود تھاکہ اچانک چلتے چلتے گاڑی کے پچھلے ٹائیر میں بڑی ساری کیل چلی گئی اورگاڑی نے پھڑ پھڑ شروع کر دی اور ٹائیر کا رم روڈ سے ٹکرانے لگا مجبوراً گاڑی روکی تو سامنے ایک ٹائیر پنکچر والی دکان نظر آگئی، ایسے حالات میں میرے دل سے حسب معمول یہی دعا نکلتی ہے کہ” یا اللہ کسی نیک بندے سے واسطہ پڑے "اور ایسا ہی ہوا اللہ نے مجھے ایک نیک بندے سے ملا دیا ۔خرابی صحت کی وجہ سے گلے سے آواز بھی بہت کم نکل رہی تھی ، گاڑی کھڑی کرنے کے بعد بہت ہی دھیمی آواز میںپنکچر والے سے مخاطب ہوا کہ بھیاء ریڑھی والے کی ریڑھی کو پنکچر لگا کر میری گاڑی کو بھی دیکھ لو اور میں یہ کہنے کے بعد خاموشی سے دکان میں موجود ایک بنچ پر بیٹھ گیا دکاندار قد کاٹھ اور جسامت سیکسی پہلوان کی مانند لگ رہا تھا اور میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ جلدی سے یہاں سے فارغ ہو کر گھر پہنچوں اور آرام کروں اب حسب عادت میں خاموشی سے بیٹھا اس پنکچر والے کے کام کے انداز کودیکھنے لگا۔ دکاندار کے اس عمل نے ہی مجھے پہلوان میںچھپا اچھا انسان دکھائی دینے لگاکہ جب وہ ریڑھی کو پنکچر لگاچکا تو اُس نے غریب جان کر ریڑھی والے نے جتنے پیسے دیئے وہ خوشی سے رکھ لئے ۔کیونکہ پہلوان کو احساس تھا کہ یہ غریب ریڑھی والا ہے میں اسے جتنی رعائیت دے سکتا ہوں ضرور دوں ۔ پہلوان کے اس عمل نے مجھے اس کی جانب متوجہ کیا اب میں نے اس پسینے میں شرابور محنتی انسان کی حرکتوں کا مشاہدہ شروع کر دیا وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر میری گاڑی کے ٹائیر کا پنکچر لگانے مصروف ہو گیا کہ اسی اسنا ء میں ایک خوبرو نوجوان موٹر سائیکل پرسوار اس کی دکان پر آکر رکا جس کے ساتھ ایک خاتون بھی تھی پہلوان ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس موٹر سائیکل کی طرف لپکا مگر نوجوان خاتون کو وہاں چھوڑ کر دوسری دکان پر چلا گیا تھوڑی دیر بعد وہ نوجوان واپس آیا اور پہلوان پھر میرا کام چھوڑ کر اس نوجوان سے پوچھنے لگا کیا مسئلہ ہے اُس نے کہا بائیک میں ہوا بھر دو پہلوان نے ایک لمحہ دیرکئے بغیر ٹائیروں میں ہوا بھری اور اجرت بھی نہ لی اور شکریہ بول کر دوبارہ میری گاڑی کے ٹائیر پرکام شروع کر دیا اور مجھ سے مخاطب ہوا کہ سر مجھے اس نوجوان کی اس حرکت پر تعجب ہوا کہ یہ خاتون کو میری دکان پر چھوڑ کر کسی اور کام کے لئے نکل گیا اور اُس خاتون کو انتظار کی زحمت اُٹھانا پڑی ۔ میں نے پوچھا کہ تمہیں کیوں تعجب ہوااور تم نے تو اجرت بھی نہیں لی تو وہ بولا سر جی میں اپنی دکان پرآنے والی خواتین کا بہت احترام کرتا ہوںاجر ت اس لئے نہیں لی کہ ایک خاتون کو میری دکان کے باہر کھڑے ہوکر اپنے ہی بندے کا انتظار کرنا پڑا ، اُس نے کہا سر جی میری دکان کے سامنے اگر کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل خراب ہو جائے جس میں خواتین موجود ہوں تو میں سب کام چھوڑ کر پہلے خواتین کے احترام کی غرض سے اُن کا کام شروع کر دیتا ہوں اور گاڑی میں اگر گرمی ہے یا باہر دھوپ ہے تو خواتین کو اندر بیٹھنے کا کہتا ہوں ، پہلوان جی نے مجھے کہا کہ سر جی میں خواتین کا احترام کر کے دلی سکون محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس احترام کا صلح مجھے اس طرح سے ملتا ہے کہ میں جب بھی فیملی کے ہمراہ کہی باہر نکلتا ہوں تو مجھے ہر سو آسانیاں ہی آسانیاں ملتی ہیں اور میرا دل بھی بہت مطمئن ہوتا ہے اس سوچ سے کہ میں لوگوں کی ماووں بہنوں اور بیٹیوں کو عزت اور احترام دیتا ہوں اس لئے میرے گھر کی خواتین کو بھی جب وہ میرے ہمراہ ہوتی ہیں توایسی ہی آسانیاں دیتا ہے ۔ تو اُس پر میں نے پہلوان سے کہا کہ کیا تم نے یہ نہیں سن رکھا کہ "کر بھلا سو ہو بھلا”
تو میری یہ بات سن کر وہ بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی میں اپنا ایک اور قصہ سنانا شروع کر دیااس نے کہا صاحب جی میرا چھوٹا بھائی ٹیکسی ڈرائیور ہے ایک باراس کی گاڑی کے ساتھ ایک سائیکل سوار کی ٹکر ہوگئی اور وہ روڈ پر گر گیا اسے کچھ زخم آگئے وہ اس سائیکل سوار کو ہسپتال لے گیا ابتدائی طبی امداد دلوائی اوراُس کی سائیکل ٹیکسی کی چھت پر رکھ کے اسے اس کے گھر چھوڑنے چلا گیا اس کے رشتہ داروں اور محلے والوں نے سائیکل سوار کی یہ حالت دیکھی تو میرے بھائی کو مارنے کے لئے سوٹے اور گنڈاسے نکال لئے اس بپھرے ہوئے ہجوم میں سے ایک معزز شخص نے بڑی عقل مندی سے میرے سے پوچھا کہ تم یہ بتائو کے تم ہو کون تاکہ تمہاری ٹہکائی کرنے کے بعد تمہیں تمہارے علاقے تک تو چھوڑ دیں تو اس پر میرے بھائی نے میرا نام لیتے ہوئے کہا کہ میں پہلوان ٹائیر پنکچر والے کا بھائی ہوں بس میرے بھائی کا اتنا کہنا تھا کہ وہ معزز شخص ہجوم سے مخاطب ہواکہ اس ٹیکسی ڈرائیور کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گااب یہ میرا مہمان ہے سب نے وجہ پوچھی تو اس معزز شخص نے کہا کہ یہ جس شخص کا بھائی ہے وہ بہت نیک ،عزت دار انسان ہے لوگوں کی ماووں بہنوں اور بیٹیوں کو عزت کی نگا ہ سے دیکھنے والا ہے ۔ایک بارمیں گاڑی پر جا رہا تھا کہ میری گاڑی پنکچر ہوگئی تو میرے ساتھ میری ماں بھی تھی تو اس کے بھائی پہلوان پنکچر والے نے گاڑی کو پنکچر بعد میں لگایا پہلے میری ماں کو اپنی دکان کے اندرپنکھے کے نیچے کرسی پر بٹھا دیا اور کہا ماں جی آپ یہاں تشریف رکھیں اور اس کے بعد اُس نے گاڑی کے ٹائیر کا پنکچر لگایا مجھے اس کے بھائی کا وہ حسن سلوک آج بھی یاد ہے اور قدرت نے مجھے آج موقع دیا کہ پہلوان کے اُس اچھے عمل کا بدل اچھا ئی میں ادا کر سکوں،اس لئے اب اس ٹیکسی ڈرائیورکو کوئی بھی ہاتھ نہیں لگائے گا بلکہ اب یہ میرامہمان ہے اس کے بعد اس شخص نے جس کا میں نام تک نہیں جانتا اُس نے میرے بھائی کو کھانا بھی کھلایا اور ساتھ میں وہ پیسے بھی لٹا دیئے جو میرے بھائی نے ہسپتال میں اُس سائیکل والے پر خرچ کئے۔اُس معزز شخص کا شکریہ ادا کرنے کے بعد میرا بھائی سیدھا میرے پاس پہنچا اورآکر ساری داستان سنانے کے بعد کہا کہ بھائی تمہاری ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں اور لوگوں میں آسانیاں بانٹنے کی عادت نے آج مجھے ایک بہت بڑے عذاب سے بچایا مجھے آج پتہ چلاکہ تمہاری ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی وجہ سے اللہ نے تمہارے اور رتمہارے گھر والوں کے لئے کتنے بڑا اجر رکھے ہوئے ہیں ۔ آج تمہاری ان نیکیوں اور آسانیوں کی صفت نے تمہارے بھائی کی جان بچائی اپنے اس عمل کو ایسے ہی جاری رکھنابھائی تمہاری وجہ سے اللہ کی رحمتیں ہم پر بھی برس رہی ہیں۔
پہلوان جی نے کہا کہ صاحب جی بھائی کے ساتھ ہونے والے اس واقعے کے بعد میرا توکل اپنے اللہ پر اور بڑھ گیا کہ اگر ہم ایسے ہی لوگوںمیں اپنی حیثیت کے مطابق آسانیاں بانٹیں گے تو اللہ کریم ہمارے رجسٹر میں ان نیکیوں کو شامل کر تا چلا جائے اور ضروت پڑنے پر یہی نیکیاں غائب سے ہماری مدد کا وسیلہ بن جائیں گی۔ صاحب جی اس لئے میں ایک بھی نیکی کاعمل اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
اس چھوٹی سی پنکچر والی دکان کے بڑے آدمی نے آج پھر اشفاق احمد” بابا جی” کی یاد دلا دی جو ہمیشہ نیکیاں کمانے اور آسانیاں بانٹنے کا درس دیتے تھے۔ پہلوان پنکچر والے کے اس حسن اخلا ق کو دیکھ کر سمجھ لگی کہ کہ کوئی بھی کام چھوٹایا بڑا نہیں ہوتا انسان کی سوچ چھوٹی یا بڑی ہوتی ہے ۔پہلوان پنکچر والے کی طرح اگر ہملوگ بھی اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں بانٹنا شروع کر دیں تو ہمارے اس عمل سے نہ صر ف لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہونگی بلکہ اللہ پاک ہمارے لئے بھی ہماری زندگی آسان کر دیگا اور ہمیں اپنی نعمتوں سے نوازے گا کیونکہ "کر بھلا سو ہو بھلا”