سپریم کورٹ:افتخارمرزا کاصحت جرم سے انکار،گواہان شواہد طلب
ایف آئی اے نے ازخود نوٹس کیس میں پیشرفت رپورٹ جمع کرادی
اسلام آباد (آن لائن)سپریم کورٹ میں آغا افتخارالدین توہین عدالت کیس کی سماعت،افتخار الدین مرزا کی طرف سے صحت جرم سے انکار،عدالت عظمی نے آئندہ سماعت پر استغاثہ سے گواہان اور شواہد طلب کر لیے ہیں ۔ معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔ دوران سماعت وکیل آغا افتخار الدین نے موقف اپنایا کہ ایک ہی ویڈیو کی بنیاد پر دونوں مقدمات بنے،ٹرائل کورٹ کے فیصلے تک سپریم کورٹ کاروائی روک دے،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایک ویڈیو میں چار قوانین پامال کئے تو ہر ادارہ حرکت میں آئے گا،ہر ادارہ مروجہ طریقے سے اپنے قانون کا اطلاق کرے گا،ٹرائل کورٹ اپنے شواہد پر فیصلہ کرے گی،جسٹس اعجازالاحسن نے اس موقع پر کہا کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ صرف توہین عدالت کا ہے، معافی ناموں کے باوجود صحت جرم سے انکاری ہیں تو آپکی مرضی،سائبر کرائم اور دہشتگردی کے قوانین کا توہین عدالت سے تعلق نہیں،ہر جرم کے ٹرائل کا طریقہ، شواہد اور سزا الگ ہوتی ہے۔اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ہے کہ اس سلسلے میں تمام ثبوت اور گواہ پیش کرینگے۔عدالت عظمی نے آغا افتخار الدین کی سماعت روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ ایف آئی اے کی پیش کردہ رپورٹ نامکمل ہے،ملزم کے وکیل کو چارج اور اس کے تمام ثبوت کی کاپیاں فراہم کی جائیں،بعد ازاں کیس کی سماعت تین ہفتے کیلئے ملتوی کر دی گئی ہیججز اور عدلیہ کیخلاف آغا افتخار الدین مرزا توہین آمیز ویڈیو از خود نوٹس میں ایف آئی اے نے پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے ۔ ایف آئی اے کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شریک ملزم اکبر علی کو انسداد دہشت گردی عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا جبکہ افتخار الدین مرزا کی ضمانت مسترد کر دی گئی تھی۔افتخار الدین مرزا کے موبائل نمبرز کی تفصیلات سی ڈی آرز کے ساتھ حاصل کر لی گئی ہیں,موبائل ریکارڈ کے مطابق ملزم نے بیرون ممالک رابطے کیے,عبدالوحید ڈوگر نے جسٹس قاضی فائز عیسی ریفرنس سے متعلق شہزاد اکبر سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ میں شکایت درج کرنے کے بعد ایک مرتبہ شہزاد اکبر سے ملاقات کی,ملزم کے اکاونٹس میں بیرون ممالک سے بھی فنڈنگ ہوتی رہی,ملزم کے پاس سزوکی مہران اور ویگن آر دو گاڑیاں ہیں,ملزم کے ٹیکس ریکارڈ کیلئے چیئرمین ایف بی آر کو درخواست کی ہے۔