چیف جسٹس آف پاکستان آج کل فل فارم میں ہیں ۔وہ صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا اور واپسی کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا یعنی یوٹیوب پر ججز کی کردار کشی کے حوالے سے سخت غصے میں بھی ہیں ۔مطیع اللہ جان ایک سخت جان اور ضدی صحافی مشہور ہیں ۔ وہ جس کے پیچھے پڑ جائیں تو پھر انجام کی پرواہ نہیں کرتے ۔سپریم کورٹ کے رپورٹر ہونے کے باعث ان کی معلومات عام صحافیوں سے ذرا ہٹ کر اور کلاسفائیڈ قسم کی ہوتی ہیں لہذا ان کاہر ٹویٹ ہر آرٹیکل ہر بلاگ طاقتور حلقوں کیلئے آہنی ضرب سے کم نہیں ہوتا ۔خیر سی سی ٹی وی فوٹیج مطیع اللہ جان کی زندگی کو بچاگئی ۔ورنہ جس فتح جنگ روڈ پر وہ چھوڑے گئے ہیں اسکی ایک کھڑکی کابل یا علاقہ غیر میں کھلتی ہے، اسی روڈ سے ایس پی محسن داوڑ بھی لے جائے گئے تھے، جس نے بھی مطیع اللہ جان کو اغوا کے بعد رہائی کا کام کیا اس نے ملک قوم اور اداروں کیساتھ بھلائی کی کہ وہ انہیں زندہ سلامت چھوڑ گئے ۔
پیارے پڑھنے والو!
بات ہورہی تھی سپریم کورٹ آف پاکستان کی سوشل میڈیا خا ص کر یوٹیوب پر برہمی کی تو میرے ایک دوست معظم نے اسے قوم کے دل کی آواز کہا ہے کہ ججز کے ریمارکس ہمارے ایمان کا درجہ ناپنے کا اہم پیمانہ ہیں کہ آج جب اپنے خاندانوں کی بات آئی تو عدلیہ میں یوٹیوب چینل کو بند کرنے کی دھاڑ بھی سنائی دی گئی لیکن جب نبی آخر الزمان حضر ت محمد مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم کیخلاف گستاخانہ خاکوں، کارٹون اور توہین آمیز وڈیو کی بات سامنے آئی تھی تو ہم سب سمیت کسی جج،جرنیل کے سر سے جوں تک نہ رینگی تھی، سوال یہ ہے کہ کیوں ؟شاہد ہماری تباہی ،معاشی وسماجی ابتری کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم کی ذات پر خدانخواستہ اپنی ذات کو ترجیح دینا شروع کردی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو جو ملک یا سوشل میڈیا چینل اسلام کی اساس پر حملہ کرتا اسکو پہلی فرصت میں پاکستان میں بند یا بین کردیا جاتا ،اسکی مصنوعات کا بائیکات کیا جاتا،لیکن ایسا نہ ہوسکا اگر یوٹیوب یا ٹک ٹاک چینل ہی ترقی کی بنیاد ہے تو پھر چین جس نے فیس بک ،یوٹیوب کو بند کرکھا ہے وہ اس وقت افغانستان سے بد حال ملک ہوتا ،اسکا مطلب ہے کہ یہاں سب کھیل تماشہ ڈالرز کا ہے ،ایمان کی سلامتی اور اسلام کی درخشاں روایات کی پاسداری کا نہیں ۔ ہمیں اپنی معاشی ،سماجی محاذ کیساتھ ساتھ نظر یاتی محاذ کو بھی محفوظ رکھنا ہوگا یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ پمرا ہو یا پی ٹی اے سب کے سب پولرائزیشن کا شکار ادارے ہیں ،وہاں پر بیٹھے لوگوں کے ہاتھ اور پائوں اس قد ر مروڑے ARM TWISTINGگئے ہیں کہ وہ اعصابی اور ذہنی طور پر مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں پی ٹی اے اور پمرا اپنے اختیارات اپنی مرضی سے استعمال نہیں کرسکتا ۔اسلامی نظریاتی کونسل اپنا کردار مرضی سے ادا نہیں کرسکتی سب کے سب مافیاز کے پنجے میں ہیں، ہرا یک کا کوئی نہ کوئی ایجنڈا ہے یا وہ کسی آقا کا غلام ہے لہذا جو کام پمرا ،پی ٹی اے، ایف آئی اے یا کسی اور نے نظریاتی محاز پہ کرنا تھا وہ کوئی نہیں کرپایا ،ہرکوئی اپنی نوکری پکی کرنے کے چکرمیں اداروں کو مفلوج بناکر بیٹھ گیا ہے، جسکا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہر کام میں عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے ،لیکن یہاں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان اداروں کی ARM TWISTING بھی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے ہی کی اور ان کو ذہنی طور پر مفلوج بنا دیا،چئیرمین پمرا سے لیکر چئیرمین پی ٹی اے تک سب کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں اور وہ آئینکی بجائے فرد واحد کو جواب دہ ہوکر قوم کو ڈی ٹریک کررہے ہیں
پیار پڑھنے والو!
ملک میں معاشی ابتری کی صورتحال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی براہ راست نگرانی میں چلنے والے ادارے بھی زوال کا شکار ہونا شروع ہوگئے ہیں ملک میں معاشی نمو میں مندی اور خاص کر کنسٹرکشن انڈسٹری کے بیٹھ جانے کے بعد آج صورتحال یہ ہے کہ ،فوجی سیمنٹ اور ان سے متعلقہ ادارے بھی زوال کی راہ پر ہیں ۔شنید ہے کہ سیمنٹ فیکٹری میں خسارہ ناقابل برداشت ہوکر رہ گیا ہے اسی طرح فرٹیلائزر کا شعبہ بھی روز بروزمندی کا شکار ہورہا ہے فوجی فائونڈیشن جوخالصتا ایک فلاحی ادارہ ہے اورسپاہی و حوالدار رینک کے ایکس سروس مین کیلئے امید کا سہارا تھا وہ بھی اب ریٹائرڈ فوجیوں سے میڈیکل ٹیسٹ کی مد میں بھاری فیس لینا شروع ہوگیا ہے، [پہلے تمام ٹیسٹس فری ہو تے تھے ، جو جے سی او یا سپاہی 15 بیس ہزار پنشن لیتے ہیں وہ اب اپنا میڈیکل ٹیسٹ وعلاج فوجی فائونڈیشن سے فری نہیں کراسکیں گے ،جن جونیئر افسران کے فنڈز سے یہ ادارہ بنا وہ آج انہی سے علاج معالجے کے پیسے مانگ رہا ہے، اوپر سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسکا ایم ڈی ملک ارشدنامی شخص کو لگا دیا گیا ہے جس نے خود ہی اپنی 74 لاکھ ماہانہ تنخواہ لگا لی ہے جبکہ اسکے پیشرو ایم ڈی کی تنخواہ پندرہ لاکھ تھی ،اس شخص نے بورڈ آف گورنرز کو ایک سائیڈپہ کردیا اور اکیلے ہی فوجی فا ونڈیشن جیسے ادارے کی قسمت کا ان داتا بنتے ہوئے اس میں سے ہزاروں ملازمین کو نوکری سے برطرف کردیا ہے ۔ کئی ٹیکنیکل کالجز بند ہوگئے ہیں کشمیر ،بلوچستان گلگت میں قائم فوجی فائونڈیشن کی ڈسپنسریاں بند کرکے ان کے ملازمین کو فارغ کردیا گیا، ان ڈسپنسریوں میں ہزاروں ریٹا ئرڈ بزرگ فوجی و انکی بوڑھی بیوہ علاج کیلئے آتے تھے اب انکو بڑے شہروں میں ہزاروں روپے کرایہ لگا کرآناپڑے گا ،سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ایک خالصتا فوجی نفسیات کا ادارہ ایک اکاونٹنٹ ٹائپ کا ایم ڈی کا چلا رہاہے جس سے نقصان ہورہاہے ،ملازمین کی برطرفیوں کی واحد وجہ یہ ہے کہ ادارہ اوور لوڈ تھا، ملک ارشد سے کوئی پوچھے کہ کل تک پرافٹ والا ادارہ 4 ما ہ میں کیسے ڈیفالٹر کی طرف چلا گیا ؟کیا اسکی وجہ آپ کی طرف سے نااہل افراد کی تقرریاں نہیں؟کیا ایک نان میڈیکل پرسن کسی کوالفائیڈ ڈاکٹر میجر جنرل کا مقابلہ کرسکتا ہے؟کون بتائے گا کہ 3 لاکھ لینے والا میجر جنرل ڈاکٹر آپ نے اپنے بندے کو 15 لاکھ پر رکھنے کیلئے کیوں نکالا؟اور اگر ادارہ میں فنانشل کرنچ تھا تو آپ نے کیا اس کی ما رکیٹنگ کی ؟اسکے ریونیو کو بڑھانے کیلئے کیا آپ نے کو ئی نئے ایونیویا کوریڈور ڈھونڈے ؟آپ نے ادارہ کی تباہی کی بنیاد انکے ورکرز کو نکال کر کیوں رکھ دی؟کس سے آپ نے اجازت دی ؟کیا کسی بورڈ آف ڈائریکٹرز سے آپ نے سکول ، ٹیکنیکل کالج ،سکول، ڈسپنسریاں بند کرنے کی اجازت لی ؟فوجی فا ونڈیشن سے کروڑوں ریٹائرڈ فوجیوں ، اس ملک پہ جان دینے والوں کی فیملیز کی صحت ، تعلیم جڑی ہے ۔ آپ کو کس نے حق دیا کہ آپ خود ہی سب کچھ بند کرنے کا فیصلہ کرلیں ؟اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جو ادارے کل تک اربوں کا ٹیکس اور رنونیو بنا رہے تھے آج وہ کیوں ڈیفالٹر کی طرف جارہے ہیں ؟ اور اس ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے کیا واحد فارمولہ ریٹائرڈ فوجیوں یا ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کررہا ہے ؟یہ ادارے کیوں کمپرسی کا شکار ہورہے ؟ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس پر نگاہ رکھنی چاہیے ۔!
پیارے پڑھنے والو!
ملک کی طر ف معاشی بدحالی کا ایک سونامی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ اسکی پیش بندی میں حکومت آج بھی کہیں سنجیدہ نظر نہیں آرہی یہ خدشہ روز بروز تقویت پکڑ رہا ہے کہ اگر نیا سوشل پولیٹیکل کنٹریکٹ (نیا عمرانی وسیاسی معاہدہ ) نہ کیا گیا اور معاملات کو اس طرح غیر سنجیدگی سے نمٹایا جاتا رہاتو بڑا نقصان ہوجائیگا !
Next Post