ہمیشہ لبرل کی اصطلاح سے کنفوژن پیدا کرتی رہی ہے ، لبرل ازم کیا ہے؟ کیا یہ کسی نظریہ کانام ہے یا محض ایک فریب ، ہر ایک کو اپنی اپنی رائے کا پورا پورا رائٹ ہے لیکن اس اصطلاح کا فریب صرف مسلم نظریات پر ہی سر چڑھ کو کیوں بولتا ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ہمیں مذہبی رواداری اور برداشت کا درس ضرور دیتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ تمام مذاہب برابر ہیںاگر تمام مذاہب کو برابرمان لیا جائے پھر حق و باطل میں کشمکش کا کوئی جوا نہیں رہے گا ،سورہ کافرون میں اللہ تبارک و تعالیٰ حق و باطل نظریات کی مکمل فلاسفی بیان کردی ہے ( لکم دینکم ولی دین) ہمارے خطے کے حکمرانو میں بھی نظریاتی کشمکش رہی برصغیر کے عظیم جرنیل فرید خان عرف شیر شاہ سوری کی شخصیت اور خوبیوں کے ان کے مخالفین بھی مداح تھے انہیں 68برس کی عمر میں صرف5سال حکمرانی کرنے موقع ملالیکن ان 5سال میں انہوں نے اپنی سلطنت کا نقشہ بدل کے رکھ دیا ، مختصر مدت میں شیر شاہ سوری نے وہ کار ہائے نمایاں سرا نجام دئیے جن کی مثال ہندوستان کے کسی حکمراں کے دور میں نہیں ملتی وہ ایک زبردست منصوبہ ساز اورزیرک جرنیل تھا انہوں نے اپنے مخالفین کا مقابلہ تلوار سونت کر نہیں بلکہ وارٹال کر کیا اور ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ لڑائی ٹل جائے لیکن دشمن کی طرف لڑائی مسلط ہونے کے بعدوہ میدان جنگ میں اس کا مردانہ وار مقابلہ کرتیتھے ، انہوں نے عنان اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد بلا امتیاز انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا اس دور میں کسی مسلم کو کسی غیر مسلم، کسی امیر کو کسی غریب اور کسی سنی کو کسی شیعہ کے حقوق پامال کرنے کی اجازت نہیں تھی اور شیر شاہ سوری کا دیگر مذاہب کے افراد پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ ان کے دور میں خفیہ اداروں کا نظم و نسق ہندوئوں کے پاس تھا یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ ایک نظریاتی مسلمان اورمذہبی رواداری کا حامی جرنیلتھے لیکن انہوں نے کبھی اپنی غیر مسلم رعایا کو تنگ نہیں کیا تھا لیکن زندگی میں شیر شاہ سوری اپنے عقائد اور نظریات پر قائم رہے ان کی پہچان ایک راسخ العقیدہ مسلمان حکمران کے طور پر تھی وہ مسلمان کے ہیرو ہیں لیکن ہندو ان کے کارناموں سے صرف نظر کرتے ہیں، برصغیر میں لبرل ازم کے بانی اکبر دادشاہ تھے لیکن انہیں اپنے اس نظریہ میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی تھی اور نہ وہ ہندوئوں کے دل جیت سکے اگر رام اور رحیم میں فرق ختم کرنے سے کوئی بات بنتی پھر اکبر ضرور کامیاب ہوتے، بن قاسم نے بغداد سے سندھ کا سفر کیوں کیا ان کا یہ سفر ایک نظریہ کے احیاء کیلئے تھا
لبرل کی اصطلاح میں بڑی جاذبیت ہے خصوصا نئی نسل اس اصطلاح سے بہت متاثر ہوتی ہے اہل کلیسا ہوں یا یہودیت کے پیروکار، انہوں نے کبھی بھی اپنے مذہبی عقائد نظریات کو نہیں چھوڑا،9/11کے موقع پر صدر جارج ڈبلیو بش نے یہ جملہ کہا تھا کہ آج سے پھر ایک بار پھر صلیبی جنگوں کا آغاز ہو گیا ہے اور بر صغیر پاک و ہند میں 2ریاستوں کی بنیاد ہی مذہبی عقائد و نظریات پر رکھی گئی، بابری مسجد ایک مسجد ہی نہیں بلکہ ایک نظریہ کی یاد دلاتی تھی جس کو شہید کردیا گیا اور اس وقت نام نہاد لبرل نظریات حامی ٹس سے مس نہ ہوئے اور امت مسلمہ کے عالمی رہنمابھی خاموش رہے کہ کہیں ان کے لبرل نظریات پر آنچ نہ آجائے ۔ دراصل لبرل ازم راسخ العقیدہ مسلمان کو اس کے بنیادی نظریات سے دور رکھنے کا ایک جال ہے۔
یہ جولائی1994ء کا واقعہ ہے کہ ایبٹ آباد میں پہاڑوں کے دامن میں صحافیوں کیلئے ایک تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک بھر سے بڑی بڑی قد آور شخصیات کے لیکچرز ترتیب دئیے گئے تھے جس میں استاد محترم پروفیسر ڈاکٹرقاری مغیث الدین شیخ کے لیکچر کا بھی اہتمام کیا گیا ان کے لیکچر کا موضوع ”صحافی اور نظریات” تھالیکچر کے بعد سوال وجواب کی نشست ہوئی سوال و جواب کی نشست میں استاد محترم اور شرکاء درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا قاری صاحب نے بڑے واضح الفاظ میں بتایا کہ ایک اچھا صحافی وہ ہوتا ہے جو نظریاتی ہو لیکن وہ اپنے نظریات کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داروں میں آڑے نہیں آنے دیتا بار بار شرکاء کی طرف سے پوچھا جا رہا تھا کہ صحافی غیر جانبدار نہیں ہو سکتا ؟ قاری صاحب نے جواب بڑے سادہ الفاظ میں دیا کہ ہر صحافی کا ایک نظریہ ضرور ہوتا ہے اور جس کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا اس کا بھی ایک نظریہ ہو تا ہے شرکاء نے پو چھا آپ کے خیال میں جس کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا اس کا کیا نظریہ ہوتا ہے ؟قاری صاحب نے بتایا اس کا نظریہ” مفاد پرستی” ہوتا اسے جس طرف سے زیادہ مفادات نظر آئیں گے وہ اس طرف اپنا وزن ڈال دے گا اور پھر یہ سلسلہ تھمتا نہیں یہ سیاسی سے مذہبی نظریات تک جاتا ہے لہذا اچھا صحافی وہ ہی ہوتا ہے جس کے اپنے سیاسی و مذہبی نظریات ہوں۔
24جولائی کو ترک صدر رجب طیب اردگان نے آیا صوفیہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا اعلان کیا اس اعلان کے بعد دنیا بھر میں مسیحی برادری نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن ترک صدر نے اس بارے کسی قسم کا دبائو برداشت کرنے سے انکار کردیا انہوں نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ 24جولائی کو ہر صورت نماز جمعہ آیا صوفیہ میں ادا کی جائے گی اور اس روز سے آیا صوفیہ مسجد آیا صوفیہ کہلائے گی ترک صدر نے دیگر مسلم حکمرانو کیلئے قابل تقلید مثال قائم کی اس سے جہاں انہوں نے ایک تاریخ رقم کی وہاں انہوں نے ترک روایات کا بھی پورا خیال رکھا سلطان محمد فاتح نے اپنی فتح کے بعد آیا صوفیہ کو چرچ سے مسجد میں تبدیل کیا اور وہاں نماز ظہر ادا کی تاریخ اس بات کو گواہ ہے کہ فتح قسطنطنیہ کے بعد استنبول میں مسلمانوں کے پاس نماز کی ادائیگی کیلئے کوئی جگہ نہ تھی سلطان محمد فاتح کو آیا صوفیہ پسند آئی انہوں نے اہل کلیسا سے یہ جگہ اپنی ذاتی جیب سے خرید ی اور اسے مسجد کیلئے وقف کردیا جس کے دستاویزات آج بھی ترک حکومت کے پاس محفوظ ہیں ،24جوالائی کو نماز جمعہ کے موقع پر ایک ترک درزی کے بیٹے طیب اردگان نے اپنی خوش الحان آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرکے لبرل نظریات کے حامیوں کے منہ طمانچہ رسید کیا ا کہ میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمان کی پہچان اس کے نظریات ہیں اللہ تعالیٰ انہیں استقامت دے (امین)
Next Post