بھارت،پاکستان کوایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ کیطرف دھکیلناچاہتاہے،وزیرخارجہ
اصلاحی اقدمات کے ذریعے بھارت کی کوششوں کاراستہ بند کیا،قومی اسمبلی میں خطاب
اسلام آباد:وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت، پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا ک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حکومت میں آنے سے پہلے ہی پاکستان گرے لسٹ میں آچکا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ یک لخت نہیں ہوا بلکہ یہ طویل کوتاہیوں کی داستان ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیا گیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اپوزیشن اراکین سمیت ہم سبھی چاہتے ہیں کہ گرے لسٹ کی تلوار جو ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے اس سے آزادی حاصل کریں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی ایک واضح پالیسی ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی طرف دھکیل دے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان، بلیک لسٹ میں چلا جاتا ہے تو جو معاشی بدحالی، جو پابندیاں لاگو ہوں گی، اس سے مہنگائی کا طوفان پیدا ہوگا اور سرمایہ کاری کو نقصان پہنچے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی کا جو جن بوتل سے باہر آئے گا اس سے بیروزگاری پیدا ہوگی اور بھارتی سازشی عناصر اس سے پوری طرح باخبر ہیں اور یہی ان کی کوشش ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلا جائے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہر فورم پر بھارت، پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوشش کرتا رہا اور ہم اسے گرے لسٹ سے نکالنے کی جستجو کررہے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس مقصد کے لیے ہم نے سفارتکاری کا سہارا لیا اور جتنے بھی پاکستان کے دوست ممالک ہیں جیسا کہ ترکی، سعودی عرب، ملائیشیا کے ساتھ سفارتی طور پر مصروف عمل ہوئے تاکہ اگر بھارت ہمیں بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوشش کرے تو اسے روکنے کے لیے ہمارے پاس معقول تعداد میں ووٹ ہونے چاہئیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی منصوبہ بندی سے انتظامی اور اصلاحی اقدمات کے ذریعے بھارت کی کوششوں کا راستہ بند کیا اور پیرس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے آخری اجلاس میں پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف کیا گیا اور انہیں سراہا گیا لیکن کہا کہ کچھ ذمہ داریاں ہیں جو پوری کرنی ہیں۔وزیر خارجہ نے وزارت خزانہ، ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی نمائندگی کرنے پر وفاقی اسدعمر اور حماد اظہر کو خراج تحسین پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم اس گرے لسٹ سے آزادی حاصل کریں جس کے لیے ہمیں کچھ قانون سازی درکار ہے اور ہم نے کچھ بلز متعارف کروائے ہیں اور تقریباً 11 کے قریب چیزیں ایسی ہیں جہاں قانون سازی درکار ہے۔شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اپوزیشن سے مذاکرات کریں ہم ان سے امداد کے طلبگار ہیں کیونکہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن پاکستان کے مفادات مقدم ہیں، ہم آج یہاں ہیں کل نہیں ہوں گے، ہم سے بڑی ہستیاں آئیں اور چلی گئیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اس چیز کو اور وقت کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے اپوزیشن کو دعوت دی کہ ان پر مذاکرات کرلیں اور ایسے 4 بلز کی شناخت کی گئی جن پر ہمیں فوری قانون سازی کی ضرورت ہے کیونکہ آج ہم قانون سازی کریں گے تو وہ رپورٹ ایشیا پیسیفک گروپ کے پاس جائے گی وہ اس کا تجزیہ کریں گے اور رپورٹ مرتب کرکے ایف اے ٹی ایف پلینری میں پیش کرے گی جہاں فیصلہ ہوگا کہ پاکستان نے گرے لسٹ میں رہنا ہے یا اس سے آزادی حاصل کرتا ہے اور وائٹ لسٹ میں آتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے جب اس ضرورت کو محسوس کیا تو اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں سے بات چیت کا آغاز کیا اور انہوں نے خندہ پیشانی سے اس کی اہمیت کو جانچا میں نے ان کا شکر گزار ہوں جنہوں نے کہا کہ ہم اس پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ بلز ہم نے دونوں ایوانوں سے منظور کروانے ہیں اور ایک بل ایسا ہے جو قومی اسمبلی پاس کرچکی ہے لیکن سینیٹ میں پاس ہونا ہے جبکہ دیگر 3 پیش کیے جاچکے ہیں لیکن منظور ہونے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس میں اپوزیشن، حکومت اور اس کی حلیف جماعتیں شامل تھیں جس کے مذاکرات ہوئے اور تبادلہ خیال بھی ہوا لیکن ایک چیز جو کم از کم میرے لیے چونکادینے والی تھی اور اس حوالے سے اپوزیشن سے گزارش بھی کی تھی کہ اس پر نظرثانی کریں۔بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ اپوزیشن نے کہا تھا کہ ہم ایف اے ٹی ایف پر مذاکرات کرنے کو تیار ہیں لیکن قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس پر بھی قانون سازی چاہتے ہیں اور ان دونوں کو یکجا کرکے بیک وقت آگے بڑھیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے اپوزیشن سے گزارش کی تھی ہم آپ کی بات کو رد نہیں کرتے لیکن ایف اے ٹی ایف کا معاملہ وقت کا پابند ہے لیکن اپوزیشن کے اس پیکیج ڈیل پر حیرت ہوئی اور پھر گزارش کرتا ہوں کہ جس بل سے متعلق اپوزیشن کی خواہش ہے یہ بل پچھلے 10 سال سے زیرِ بحث رہا ہے جس میں 5 سال پیپلزپارٹی اور 5 سال مسلم لیگ(ن) کی حکومت تھی اور دونوں نے اس حوالے سے کوشش بھی کی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ آج (28 جولائی) کو اجلاس ختم ہونا تھا لیکن قانون سازی کی وجہ سے ہم نے اسے 30 جولائی تک جاری رکھا ہےشاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم اس بل کو منظور کرنا چاہتے ہیںان 4 میں سے 2 انسداد دہشت گردی سے متعلق ہیں، ایک بل ایف اے ٹی اے سے متعلق اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے حوالے سے ہے اور ایک بل میوچل لیگل سسٹم سے متعلق ہے اور پانچواں نیب آرڈیننس میں ترمیم سے متعلق اپوزیشن کی خواہش ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے ایک آرڈیننس اپوزیشن کو بھیجا جو ایوان میں بھی پیش کیا گیا لیکن منظور نہیں ہوا جس پر ان کا نقطہ نظر تھا کہ اس پر کوئی پیشرفت ممکن نہیں۔انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے ایک مسودہ پیش کیا اور ہم سے شیئر بھی کیا ہم نے دیکھ کر کہا کہ ‘ جوائنٹ پرپوزل بائے پیپپلزپارٹی اینڈ پی ایم ایل این’ کے عنوان سے مسودے پر شق وار نشست کرلیتے ہیں اور ان کا ایک ایک نقطہ سمجھا جس میں اپوزیشن نے نیب کے قانون میں 35 ترامیم تجویز کیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری قانونی ٹیم نے وہ تجاویز وزیراعظم کو پیش کیں جس کے بعد حکومت کا مؤقف پیش کرنا تھا اور میں نے بتایا کہ جو ترمیم چاہتے ہیں وہ پی ٹی آئی کے لیے ممکن نہیں کیونکہ انسداد بدعنوانی ہمارا بنیادی ایجنڈا ہے اور اس پر قانون سازی ہوجائے تو نیب کا ادارہ اور احتساب کا عمل بے معنی ہوجائے۔