موضوعات ِ زندگی ہزاروں نہیں لاکھوں ہیں لیکن کچھ انتہائی حساس ہیں اور حساس موضوعات پر لکھنے سے پہلے تعظیم و تحقیق کے زینے پار کرنے پڑتے ہیں وگرنہ معاملات ِ زندگی واحدانیت سے شرک و شر کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ موضوع ہمیشہ وقت کی دھار سے جنم لیتا ہے اور وقت کی دھار مومن اور مشرک کے درمیان ”پل صراط” سے کم نہیں ہوتی۔ واحدانیت کا یقین اور رحمت ُ العالمین ۖ کے خاتم النبین ہونے پر ایمان انسان کومومن بنا دیتا ہے اور انکار مشرکوں کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ ایسے ہی سلسلے چلے آرہے ہیں اذل سے اور ابد صرف مومن کی صبح روشن کرنے کے لئے انتظار کی وادیوں کو سمیٹ رہا ہے۔ چیزیں سمٹ رہی ہیں ، وقت مختصر ہوتا جارہا ہے، ارتقاء اب اتنہا کے قریب تر ہے لیکن آج بھی قدرت کی سچائیوں سے منہ پھیر کر انسان اپنی ایجادات پر اِترا رہا ہے۔ کوئی مندر بنا کر خود کو انسانی دیوتا سمجھ بیٹھا ہے اور کوئی چرچ کے سمندر میں غرق خود کو آسمانی خلیفہ گرداننے لگا ہے حالانکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے ہی انسان کو تباہی و بربادی کے رستے دکھائے اور دھوکہ ہی دیا کہ ساری ایجادات بقا ء کے لیے ہیں۔
کچھ لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر یا دنیاوی خواہشات کے چنگل میں پھنس کر یہ کہہ بیٹھے کہ کسی مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ حالانکہ دین اسلام اور کلمہ طیبہ کو ہر معاملے اور ہر سلسلے پر فوقیت حاصل ہے اور اس پختگی ایمان کے بغیر ہم مسلمانوں کی بخشش بھی نہیں ہوگی اور ایمان والوں میں شمار نہیں کئے جائیں گے۔ ایمان کا اظہار بغیر کسی ابہام کے شرط لازم ہے لہذا معاملہ سخت استغفار کا ہے کیونکہ کسی بھی دنیاوی گروہ یا فرد نے میدان ِ محشر میں ہماری معافی کا نہ ذمہ دار ہونا ہے نہ ہی غمخوار ہونا ہے۔ جہاں تک مذہبی مقامات کی ملکیت کا معاملہ ہے، موجودہ دنیا کی صورتحال میں ملکیت ، دراصل فوقیت ہے اور اہل ِ ایمان ہی جانتے ہیں کہ ابد کا نشان دین ِ حق یعنی اسلام کے غلبہ سے موسوم ہے۔ اسلام ہی کی اہمیت ہے اور اسی کی فوقیت پرابدی کہانی کا اختتام اذل سے ملا ہوا ہے۔ متعدد مسلم سکالر، حکمران اک دوسرے کوتقویت پہنچانے کی خاطر حقیقت سے منہ موڑ ے بیٹھے ہیں اور دنیاوی آقائوں کی خوشنودی کے لیے اپنی دنیا وآخرت دائو پہ لگائے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے سورما مخصوص وقت تک دہشت اور وحشت کے بل بوتے پر حکمران رہے لیکن بالآخر مٹی تلے چلے گئے جو سب ہی کا انجام ہے۔
مسجد الحرام اور مسجد نبوی ۖ کے بعد تیسری بڑی عبادت گاہ مسجد ِ اقصیٰ ہے جس پر مسلمان اور یہودو نصارا مشترکہ حق جتاتے ہیں اور مختلف ادوارمیں مختلف مذاہب کے لوگوں کا غلبہ رہا۔ مسجد ِ اقصیٰ کی خاطر بہت ساری جنگیں بھی مسلم و غیر مسلم کے درمیان ہوئیں کیونکہ اس عظیم مسجد پر مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور یہودی بھی غلبہ چاہتے ہیں ۔ بنیادی طور پر اس مسجد کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے عظیم پیغمبروں سے ملتا ہے اور اس اعتبار سے یہ مسلم عبادت گاہ ہے اور اس سے کریم آقا محمدۖ نے معراج کا سفر کیا اور حضرت عیسیٰ واپس آکر دنیا میں اپنے پیروکاروں کو بتائیں گے کہ اسلام ہی اصل دین ہے اور لوگ لوٹ آئیں گے دین ِ حق کی جانب اور مسلمان کی حیثیت سے مسجد ِ اقصیٰ میں عبادت کریں گے۔
آیا صوفیہ قیصر کے شہر (قسطنطنیہ موجودہ استنبول) میں واقع پندرہ سوسالہ ایسا مقام ہے جس کی بنیاد حضور اکرم ۖ کی زندگی میں ہی رکھ دی گئی اور ایک حدیث کے مطابق حضور پاک ۖ نے فرمایا کہ میری اُمت میں سے ایک لشکر اُٹھے گا جو قسطنطنیہ کو فتح کرے گا اور اُس لشکر کے لیے جنت کی بشارت فرمائی۔ نبی کریم ۖ کی بصارت یہ تھی کہ دنیا بھر میں اسلام کو پھیلایاجائے اور اسلام کو غلبہ حاصل ہو۔ قسطنطنیہ پر عیسائیت غالب تھی پھر بہت سے اللہ کے سپاہی میدان میں آئے اور آپ ۖ کی حدیث کو سچ ثابت کردکھایا کہ آج مسلمانوں کا اس شہر (استنبول، قسطنطنیہ) پر غلبہ ہے اور اسی نظریہ سے آیا صوفیہ بھی مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ دنیا اب فنا کے قریب ہے اور معاملات ”میری تیری” سے بڑھ کر علامتی ملکیت تک آپہنچے ہیں۔ معمول کے حالات ہوتے تو شائد اسلام آباد میں مندر بھی تعمیر ہوجاتا لیکن حالات معمول کے نہیں ہیں۔ آخری معرکہ قریب تر ہے چاہے سوسال کے اندر ہو یا دوسو سال کے اندر ہو لیکن اب اختتامی سلسلوں کا آغاز ہوچکا ہے لہذا تمام مسلمان بولتے اور لکھتے وقت قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان دیں تاکہ یک جہتی کا تاثر مضبوط ہو۔ تمام مذاہب کے کرتا دھرتا صرف اورصرف مذہبی منافرت کا شکار ہیں اور اسی تناظر میں حکمت ِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔ ہمیں بھی بحیثیت مسلمان مذہبی مناسبت کا مظاہرہ کرنا ہے اور یک جہتی کے ساتھ علم و عمل پر گامزن ہونا ہے۔ جو مسلمان مندر بنانے کو (اسلام آبادمیں) اور آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کو اعتدال سمجھ رہے ہیں اُن کو سمجھنا یہ ہے کہ حضور پاک ۖ نے معاشرتی زندگی میں اعتدال کی تعلیم ضرور دی ہے لیکن مذہبی امور میں ہر حال میں دین ِ اسلام کے غلبہ کی ترغیب و ترویج کی ہے۔
تیرا غرورِ عبادت تجھے نہ لے ڈوبے
سنا ہے کہ پڑھتا تھا ابلیس بھی نماز بہت
حالات ِ حاضرہ کے مطابق اہم مقامات پر قبضہ علامتی ضرورت بھی ہے اور غلبہ اسلام کا مجوزہ قاعدوقانون بھی یہی ہے ۔