ایک دن قبیلے میں موجود چند سرکردہ لوگوں نے قبیلے کے نظام کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے باہم مشورہ سے ایک شخص کواپنا سردار بنالیا۔ اقتدار سنبھالتے وہ سردار کچھ دن تو بڑا اچھا بنا رہا اور خوب اچھی اچھی باتیں کرتا رہا لیکن تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد اس نے اپنا اصل (ظالم وجابر حکمران والا)چہرہ دکھانا شروع کردیا۔وہ اپنی رعایا کو دکھ اور تکلیف پہنچانے کا کوئی بھی موقع نہ چھوڑتالیکن رعایا اس کے دیے دیکھ برداشت کرتی جاتی۔ سردار کوسب سے بڑا اس بات کا بھی دکھ تھا کہ یہ ظلم وجبر اور زندگی کو تنگ کردینے کے باوجود بھی میرے خلاف بغاوت کیوں نہیں کرتے۔ ایک دن سردار نے ایک گداگر کو اپنے پاس بلایا ، جب وہ سردار کی خدمت میں پہنچا تو سردار نے چند سونے کے سکوں کی ایک تھیلی اسے دے کر کہا کہ مجھے یہ پتہ کرکے بتاؤ کہ قبیلے کے لوگ میرا ظلم وتشددبرادشت کیوں کررہے ہیں اور بغاوت کیوں نہیں کر رہے۔چنانچہ گداگر قبیلے کے ایک کونے سے دوسرے اور تیسرے سے چوتھے تک جگہ جگہ گیا اور مختلف لوگوں سے اس بارے بات کرکے وہ سردارکے سوالوں کا جواب لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ سردار بڑی بے صبری سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ سردار نے گداگر سے پوچھا بتاؤ کیا وجہ ہے؟تو گداگر نے سردار کو بتایا کہ جب وہ اپنے عوام کے اوپر تکلیفوں کے پہاڑ توڑتا ہے تو وہ بغاوت کرنے کے لیے تیاریاں شروع کردیتے ہیں لیکن کچھ ہی دیرکے بعد جب آپ ان کے لیے کوئی خوشی کی خبر سناتے یا کام کرتے ہیں تو وہ بغاوت کو ترک کردیتے ہیں۔ میرے سردار جب تک آپ عوام کی خوشی کے لیے تھوڑا بہت بھی کرتے رہے تو یہ آپ کے تشدد کو برداشت کرتے رہیں گے اور جب آپ نے کبھی کچھ نہ کیا تو اللہ نہ کرے یہ آپ سے نجات پانے کے لیے آپ کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیں گے اور پھر آپ کو سر چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔ اس وقت یہ لوگ کسی دوسرے کو اپنا سردار بنالیں گے۔ پھر نہ آپ رہیں گے اور نہ آپ کی حکومت کا نام ونشاں۔
یہی کچھ آج کل حکومت اور پاکستانی عوام کی صورتحال ہے۔کچھ روز قبل غربت کے ہاتھوں پسے ہوئے عوام پر مہنگائی کا بم گراکر بوجھ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔حکومت نے ادویات کی قیمت میں 7سے 10فیصد اضافے کی اجازت دے دی۔یہ فیصلہ ایسے وقت میں ہوا کہ جب کوروناوباء اور لاک ڈاون کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی کے وسائل پہلے ہی بڑی حد تک سکڑ چکے ہیں ان حالات میں قیمتوں میں ردو بدل کا واضح مطلب یہ ہے کہ عام آدمی کی دشواریوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ۔
پاکستان میں ہر شہری مہنگائی سے بری طرح پریشان ہے۔اس وقت ہر شہری کے لیے چینی، آٹا، پٹرول ، دالیں گھی،گوشت،مصالحہ جات اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ ان کے نرخوں میں جو خود بخود اضافہ ہو چکا ہے حکومت کے کاغذوں میں اس کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں۔ پاکستان میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مافیاز کو ایسی آزادی ملی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی مگر ڈرگز مافیا کے تو وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ ٹیکسوں کی شرح اور دیگر مدات کو ملا کر یہ اضافہ سات سے دس فیصد تک نہیں رہے گا بلکہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ اس سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔
جس کے بعد اس ملک میں علاج معالجے کے اخراجات مزید بڑھ جائیں گے۔ایک طرف شہری اشیاء خورونوش اور ضروریہ کی گرانی سے پریشان ہیں دوسری طرف ایک اسلامی ریاست میں علاج اس قدر مہنگاہو چکاہے کہ لوئر مڈل کلاس کے لئے بھی اچھی طرح علاج کرانا ممکن نہیں رہا۔بے روزگاری بڑھ چکی ہے اورلوگوں کی آمدن کم ہورہی ہے مگر مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ادویات کی قیمتیں بڑھنے سے مزید مشکلات جنم لیں گی۔ عوام میں اس وقت جس قدر مایوسی اورغصہ ہے اس کے نتائج اچھے نہیں ہو سکتے۔ایسے گھٹن حالات میں جب عوام بغاوت کرنے کا سوچتے ہیں تو انھیں خوشخبریوں کی صورت میںسبز باغ دکھانے شروع کردیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں عوام کو جو خوشخبری کی صورت میں سبز باغ دکھایا گیا ہے وہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا ۔
ابھی وزیر اعظم پاکستان نے اس بے بس اور دکھوں کی ماری عوام کے لیے ایک خوشخبری یہ سنائی ہے کہ پاکستان کے تیسرے بڑے ڈیم بھاشا کی تعمیر کا آغاز کیا جارہا ہے،
اس ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ 5دہائیاں قبل کیا گیا تھا ۔جس کو بنانے کے لیے جنرل پرویزمشرف نے 2006ء میں فیصلہ کیا، وزیراعظم شوکت عزیز نے 2007ء میں اس کا سنگ بنیاد رکھا، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو یوسف رضا گیلانی نے بھی اکتوبر 2011ء میں ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنی بلے بلے کروائی ، ان کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو انھوں نے بھی دو وزراء اعظم کے سنگ بنیاد کے اوپر سنگ بنیاد رکھ دیا۔بدقسمتی سے اس ڈیم کی تعمیر کے نام پر افتتاح کی تختیاں تو بدلتی رہیں مگر منصوبہ پروان نہ چڑھ سکا۔
برسوں سے مسلسل تاخیر کے شکار دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے فوری آغاز کا حکومتی فیصلہ روز بروز بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کے تناظر میں بلاشبہ ایسا اقدام ہے جس میں مزید طوالت کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان میں پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت کا اندازہ آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر عالمی اداروں کی ان رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے جن کی رُو سے 2040تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔ ہمیں ہر سال تقریباً 145ملین ایکڑ فِٹ بارش کا پانی دستیاب ہوتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے 14ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم پانی بچتا ہے اور ہر سال 21ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
یہ ڈیم پاکستان کی آبی ضروریات پوری کرنے اور سیلاب کی روک تھام میں معاون ثابت ہوگا۔ بھاشا ڈیم میں 81لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوگا، ڈیم کی تعمیر سے 16ہزار 500ملازمتیں اور 4ہزار 500میگاواٹ پن بجلی کی تیاری کے علاوہ 12لاکھ ایکڑ زرعی اراضی بھی سیراب ہوگی جبکہ تربیلا ڈیم کی زندگی 35برس بڑھ جائے گی۔
جس جگہ ڈیم بننا ہے یہ علاقہ تین اطراف سے پہاڑوں میں اٹا ہوا ہے جب کہ محض ایک طرف بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی قدرتی طور پر یہ پاکستان کے لیے بنا بنایا ڈیم ہے۔ گزشتہ 73 سالوں کے دوران صرف تین بڑے ڈیموں کی تعمیر پاکستان کی افسوس ناک کہانی ہے جس سے پاکستان کے حکمرانوں کی نا اہلی بدنیتی اور مجرمانہ غفلت کھل کر سامنے آتی ہے، اگر ہمارے سابقہ حکمرانوں نے دریائوں سے بجلی بنانے کی بجائے تیل پر بجلی بنانے کو ترجیح نہ دی ہوتی تو آج پاکستان کے عوام کو سستی اور وافر بجلی دستیاب ہوتی۔ تیل سے بجلی پیدا کرنے اورڈیم نہ بنوا کر سابقہ حکومتوں نے بہت بڑی غلطی کی تھی۔ جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو زبردست نقصان پہنچا اوراس طرح ملک و عوام پر ظلم و ستم کیا گیا۔
لیکن اب جب کہ اس کی تعمیر کا آغاز ہوچکا ہے تو یقین واثق یہی ہے کہ موجودہ حکومت کا یہ عوام کے لیے بہترین تحفہ ہوگا، اس وقت ڈیم کی تعمیر شروع کرنا بڑی بات نہیں ہے بلکہ اس کی تکمیل زیادہ ضروری ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی باریہ پروجیکٹ شروع کیا گیاجس کی تکمیل نہ ہوسکی، اس ڈیم کی تکمیل اب موجودہ حکومت کابڑا امتحان ہے۔حکومت صرف عوام کو خیالی پلاؤ بناکر پیش نہ کرے بلکہ ان کے حقیقی مسائل کی طرف بھی توجہ کرے اور ان کے دکھوں کا ہر صورت مداوا کرے بصورت دیگر اللہ نہ کرے کہ یہ عوام بغاوت پر اتر آئے اور پھر وزیراعظم سر چھپاتے پھریں۔
Prev Post
Next Post