Pakistan latest updates, breaking news, news in urdu

بھارتی مسلمانوں کامقدر جبراور جیلیں

راجہ جاوید علی بھٹی

97
Spread the love

پاکستان کیوں ضروری تھا اس کا جواب بھارت میں اب تک مسلمانوں کا مقدر جبر اور جیلوں کی صورت میں موجود ہے ۔ فوج ، ملٹری، انٹیلی جنس، را، پولیس اور خفیہ سول اداروں میں انتہا پسند اور مسلمان دشمن افسروں اور جوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور مزید بھرتی کا سلسلہ بھی ہر دور میں جاری و ساری ہے جس کے نتیجے میں دہشت گردی اور بم دھماکے کی ہر واردات کے بعد خفیہ ادارے پولیس اور فوج مسلمانوں پر ہی شک کا اظہار کر کے ان کی گرفتاریوں ، جبر و تشدد سے اعتراف ، عدالتوں میں جبری اعتراف سے انکار کے باجود انہیں جیلوں میں ٹھونس دیا جا تا ہے ۔ جہاں پہلے ہی قیدیوں کی گنجائش سے ہزار گنا زیادہ قیدی موجود ہوتے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ مسلمان علمائے دین کی طرف سے اسلام کی بطور دین سلامتی وحقانیت بیان کرنے اور دہشت گردی کیخلاف باقاعدہ فتوے دینے کے اقدام کو بھی بھارتی سرکار، خفیہ ایجنسیاں اور پولیس دہشت گردی سے بچنے کیلئے مسلمانوں کی دلیل، تاویل اور حربہ قرار دیتے ہیں۔اس کی ایک چھوٹی سی مثال پورے بھارت کے مسلمانوں کی طرف دہشت گردگی کیخلاف دیئے جانے والے فتوے کے باوجود آج تک مسلمانوں کی گرفتاریوں اور روا رکھے جانے والا سلوک ہے حالانکہ جمعیت علمائے ہند کے رہنماوں نے اسلام کے پیغام امن کی عام کرنے اور دہشت گردی کی مذمت کرتے رہنے کے عہد نامے کا اعلان سرعام یوں کیا تھا۔”ہم عہد کرتے ہیں کہ اسلام کے پیغام امن کو عام کریں گے اور ہم دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیںاور کرتے رہیں گے”یہ عہد نامہ جمعیت علماء ہند اور دیگر مذہبی تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی مخالف امن کی عالمی کانفرنس میں جاری کیا گیا ہے ۔ اس کانفرنس میں جمعیت علماء ہند کے علاوہ دارلعلوم دیوبند، ندوة العلماء لکھنو ، آل انڈیا مسلم پرنسل لاء بورڈ اور دیگر تنظیموں نے دہشت گردی کیخلاف فتویٰ جاری کیا۔ اس کانفرنس میں دلی کے علاوہ اس کے آس پاس کے علاقوں اور ریاستوں کے افراد شرکت کرنے آئے تھے۔ زیور محمد کا تعلق ریاست اتر پردیش سے ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں آنے پر ان کا حوصلہ بلند ہوا ہے اور ہم اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔ عبدالماجد پیشے سے کسان ہیں ان کا کہنا ہے کہ جہاں بم دھماکہ ہوتا ہے اس کے بعد اگر کوئی داڑھی والا نظر آتا ہے تو اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ شرکاء کانفرنس کا کہنا تھا کہ فروری میں ملک کے سرکردہ مذہبی ادارے دارلعلوم دیو بند میں دہشت گردی کیخلاف ایک قومی کنونشن میں بھی ایسا ایک فتویٰ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسلام دہشت گردی کی ہر شکل میں مذمت کرتا ہے اور یہ اسلام اور امن کے تصور کیخلاف ہے ۔ایک طرف تو بھارتی مسلمان امن و آشتی کے فروغ اور دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود دہشت گردی کیخلاف خالصتاْ دینی پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کی مذمت اور دہشت گردوں کیخلاف فتویٰ تک با بار دیتے آرہے ہیں ۔ دوسری طرف بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں کو صرف جرم مسلمانی میں دہشت گردی اور بم دھماکوں کی ہر واردات کے فوراْ بعد گرفتار کر کے ملوث کر نے اور پھر جیلوں میں بھیج دیئے جانے کا سلسلہ طے شدہ منصوبے کے تحت جاری ہے ۔ہندوستان میں بعض غیر سرکاری جائزوں کے مطابق ملک کی بیشتر جیلوں میں تیس فیصدسے زیادہ مسلمانوں قیدی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی کی مناسبت سے جیلوں میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد تشویش ناک ہے اور اس کیلئے عدلیہ اور پولیس تعبانہ کی ذمہ دار ہے ۔ہندوستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی ساڑھے بارہ فیصد ہے لیکن اگر ملک کی جیلو ں کی بات کریں تو یہاں مسلمانوںکی تعداد تیس فیصد سے زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ دلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں کی جیلوں میں تو حالات اس سے بھی خراب ہیں جہاں35سے 40فیصد قیدی مسلمان ہیں۔ کشمیر ٹائمز اخبار کے بیورو چیف افتخار گیلانی نے ‘ مائی ڈیزائن پریزن’ کے نام سے دلی کی تہاڑ جیل پر ایک کتاب لکھی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برس کے دوران ہندوستان کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ مسٹر گیلانی کے مطابق ہر برس رمضان سے قبل دلی کی تہاڑ جیل میں مسلمانوں کی اصل تعداد پتا کی جاتی ہے ۔ اس برس اعداد و شمار کے مطابق پوری جیل میں قیدیوں کی تعداد14328 تھی جس میں سے5620 مسلمان تھے۔ سینٹر فار ہیومن رائٹس اینڈ لاء سے تعکق رکھنے والے وجے ہلمٹ ممبئی کی مختلف جیلوں میں گزشتہ کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ ممبئی کی جیلوں میں تقریباً چالیس فیصد مسلمان قیدی ہیں۔ دلی میں جیل انتظامیہ سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کے باوجود وہاں سے جواب موصول نہیں ہو سکا۔ سینئر صحفی پرفل بدوانی کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان یں ساڑے تیرہ فیصدآبادی مسلمانوں کی ہے جبکہ ہندوستان کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد چالیس فیصد سے زیادہ ہے ۔ پرفل بدوانی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی ذیلی عدالتوں اور محکمہ پولیس میں مسلمانوں کیخلاف تعصب پایا جاتا ہے جس کے سبسب مسلم برادری کے ساتھ انصاف نہیں ہو پاتا۔ جیلوں میں تقریبا ساٹھ فیصد انڈر ٹرائل ملزم ہو تے ہیں اور پچھلے دس برسوں میں ٹاڈا اور پوٹا جیسے قوانین کے تحت بہت سے لوگوں کو بلاوجہ بند کر دیا گیا جس میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔جب بھی کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے پوچھ گچھ کیلئے مسلمانوں کو ہی پکڑ ا جاتا ہے ۔