اگرچہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام کے لئے بین الاقوامی ادارہ ایف اے ٹی ایف کو درکا ر قوانین پارلیمنٹ نے منظور کرلیے ہیں ، تاہم حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کو نظام احتساب پر اتفاق رائے کی ضرورت اپنی جگہ پر موجود ہے۔ ملک کے طویل و عرض میں بسے خاک نشینوں کو باعزت زندگی گزارنے کے لیے درکار وسائل کے بہتر استعمال کے لیے کرپشن کے تناور درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ احتساب کا ایک شفاف اور موثر ادارہ وجود میں لائے بغیر ریاست استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی۔ موجودہ احتساب کا نظام متنازعہ ہے، اسے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن ایسا تب ہوگا جب سیاسی جماعتیں پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنانے کا مصمم ارادہ کرلیں۔
حکمران پارٹی اور حزب اختلاف کے مابین دشمنی کی وجہ ، جس کے تحت حریف ایک دوسرے کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں اور قانون سازی میں تعاون کو ترک کردیتے ہیں ، کرپشن کے خلاف کام کرنے والا قومی احتساب کا ادارہ ہے ۔ آئینی طور پر خود مختار اس اس ادارے کو اپوزیشن اپنے خلاف انتقامی کاروائیوں کے لیے حکومت کے آلہ کار کے طور تعبیر کرتی ہے۔ بلاشبہ ، فریقین احتساب کی ضرورت سے انکار کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس عمل کی ملکی وسائل کے بہترین استعمال میں اسکی کلیدی حیثیت سے منکر ہیں ۔ اسی کے ساتھ ، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لیے بنائے گئے دوسرے محکموں اور ایجنسیوں کو بھرتیوں ، ترقیوں ، اور تقرریوں کی مد میں کی گئی سیاسی مداخلت نے ناکارہ کردیا ہے۔ خود قومی احتساب بیورو (نیب )کو ساختی بے ضابطگیوں کا سامنا ہے اسکا ثبوت یہ ہے کہ اس نے جس سرعت کے ساتھ سیاستدانوں کے خلاف کاروائی کی ہے، وہ سرعت افسر شاہی اور سرمایہ داروں کے حوالے سے کم نظر آتی ہے۔ پریشان کن بات یہ کہ زیادہ تر سیاستدان عدم ثبوت کی بنا پر اس کی گرفت سے پھسل گئے ہیں اور اس کے ہاتھوں اپنی بے عزتی کی دہائی دیتے پھرتے ہیں اور یہ دہائی سپریم کورٹ نے سن لی ہے۔ پیراگون کیس کے مندرجات بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت ، جس نے ایک دہائی تک مفاہمتی سیاست کے تحت عوام النا س پر حکمرانی کی اور احتساب کے عمل کو مؤثر انداز میں پس پشت ڈالے رکھا، اب پاکدامن اور پارسا بنی پھرتی ہے اس حقیقت کے باوجود کہ انہوں نے جو اثاثے جمع کیے ہیں وہ اب بھی اپنا جواز مانگتے ہیں۔دو سال کی بے نتیجہ احتساب مہم نے نیب کی ساکھ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کے مقدمات کاچناو ، تفتیش کے طریق کار ، اور مشتبہ افراد کی گرفتاری اور ان کو حراست میں لینے کے صوابدیدی اختیارات پر سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا ہے اور حکومت کو احتساب قانون میں ضروری ترمیم کا حکم دیا ہے۔
کچھ وفاقی وزرا کے بیانات سے یہ لگتا تھا کہ حزب اختلاف حکومت پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی کو احتساب قانون میں ترمیم سے منسلک کرے لیکن اب جس وقت سینٹ اور قومی اسمبلی دونوں سے نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق قوانین کی منظوری دے دی ہے، حکومت نے حزب اختلاف کے خیر سگالی کے جذبے ، جسے زیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی سراہا تھا ، کا جواب اسکی احتساب قانون میں ترمیم کی تجاویز کو رد کرکے دیا ہے، یہ کہہ کر کہ فریق مخالف احتساب کے قومی ادارے کو غیر فعال بنانا چاہتا ہے۔
پیراگون کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ نیب کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے ، فیصلے پر عمل بہر حال کرنا پڑے گا ۔ پارلیمان کو نیب قانون میں نہ صرف تبدیلی کرنا پڑی گی بلکہ احتساب کو شفاف اور موثر بنانے کے لیے ایک سو بیس اضافی احتساب عدالتیں بھی بنانا پڑیں گی۔مطلب قومی خزانے پر اربوں روپوں کا اضافی بوجھ ۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب کام حکومت اپنے سر پر لیتی ہے یا پھر پارلیمان کی بالادستی کی خاطر حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ اگرحکومت اور اپوزیشن احتساب قانون میں ترمیم پر متفق ہونے میں ناکام رہتی ہیں تو معاملات ماورائے پارلیمان طے ہونگے اور سیاسی پارٹیوں کی حیثیت مہروں سے زیادہ نہیں ہوگی۔
حکومت ، اپوزیشن سمیت تمام پارلیمان کا پرنالہ ایک ہی جگہ پر ٹکا رہے گا۔ اگر پارلیمان قومی مفاد کا تعین اور تحفظ نہیں کریں گی ، دوسرے معنوں میں عوام کے نمائندہ ہونے کا حق ادا نہیں کرسکیں گی، تو نیب اپنی تمام حشر سامانیوں کی ساتھ قومی منظر نامے پر موجود رہے گی۔ البتہ اسکے متاثرین بدلتے رہیں گے۔ یہ بات پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو دوہزار چھ میں سمجھ آگئی تھی جب انہوں نے میثاق جمہوریت کیا تھا۔ تحریک انصاف ابھی نوآموزہے، سبق تو سیکھ لے گی لیکن شاید عوام کا اس پر وہ اعتماد نہ رہے جس کے بل بوتے پر یہ اقتدار میں آئی ہے۔