پاکستان کی سا لمیت اور امن کے لیے دلیرانہ صحافت کو سراہتا ہوں۔ انجینئر امیر مقام
اسلام آباد:ادارہ فروغ قومی زبان کے زیراہتمام ایک روزہ بین الاقوامی اُردو صحافت کانفرنس(اُردو صحافت کے پچھتر سال)منعقد ہوئی۔ اس موقع پر کتاب میلےکا اہتمام بھی کیا گیاجس کا افتتاح انجینئر امیر مقام نے کیا۔ اس تقریب کی تین نشستیں تھیں ۔ پہلی نشست کی صدارت وزیراعظم کے مشیر برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن انجینئر امیر مقام نے کی۔ مہمانان خاص میں افتخار عارف، مجیب الرحمن شامی، سہیل وڑائچ اور نظیرہ اعظم(امریکہ) اور خالد عظیم چودھری شامل تھے۔ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راشد حمید نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ مکالمہ کسی معاشرے کا حسن ہوتا ہے جب تک بات نہیں کریں گے اُس وقت تک مثبت عمل پر گامزن نہیں ہوں گے۔
اس بین الاقوامی اردو صحافت کانفرنس سے صحافت کی بہتری کے لیے راستے کھلیں گے۔ آئندہ کانفرنس میں جامعات کے شعبہ ابلاغیات کے ماہرین کو بھی شامل کیا جائے گا ۔ اس نشست کی نظامت ڈاکٹر سعدیہ طاہر نے کی۔ دوسرے اجلاس کی صدارت وفاقی سیکریٹری قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن فارینہ مظہر نے کی۔ مہمانانِ خاص میں جاوید صدیق، نصر ملک (ڈنمارک)، مہمانانِ اعزاز ڈاکٹر فاروق عادل، فوزیہ شاہد اور ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی تھے۔ اظہارِ خیال کرنے والوں میں ممتاز ملک (فرانس)، شکیلہ جلیل، اکبر خان نیازی، عفت رؤف،(قازقستان) شامل تھے۔ اس نشست کی نظامی ڈاکٹر سعدیہ کمال نے کی۔اختتامی نشست کی صدارت فریدہ حفیظ نے کی ۔ مہمانانِ خاص میں جبار مرزا، ارشد فاروق (فن لینڈ)، وحید مراد، عائشہ مسعود ملک،طارق مرزا (آسٹریلیا)جبکہ اظہارِ خیال کرنے والوں میں سہیل صدیق،الماس حیدر نقوی، سجاد اظہر، سہیل تاج،شائستہ چودھری اورعارف ملک شامل تھے۔
اس نشست کی نظامت حیدر فاروق نے کی۔افتتاحی نشست کی صدارت کرتے ہوئے انجینئر امیر مقام نے کہا کہیہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بین الاقوامی دوروں اور ملکی سطح پر آنے والے بیرونی وفودکے ساتھ ہم اپنی قومی زبان میں بات نہیں کرتے۔ حالانکہ ہمیں اپنی زبان میں بات چیت کرنے پر فخر کرنا چاہیے، کیونکہ دنیا کے جن ممالک میں بھی ہم سرکاری دورے پر جاتے ہیں وہ اپنی زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور ہم اُن کے ترجمانوں کے ذریعے اُن سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ ہمیں ذہنی طور پر اُردو کو قبول کرکے بچوں سے اُردو زبان میں بات چیت کرنی چاہیے، اس لیے اگر ہم اپنی قومی زبان اُردو کو ترجیح دیں گے تو یہ ہمارے لیے بڑا اعزاز ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اس جدید ڈیجیٹل دور میں مطالعے کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے مگر پھر بھی کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں۔ادارہفروغ قومی زبان کے منصوبوں اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن بھرپور تعاون اور وسائل فراہم کرے گا۔ انجینئر امیر مقام نے کہا کہ اُن صحافیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جو آج بھی سچ بولنے کی صلاحیت اور استطاعت رکھتے ہیں۔
جس صحافی نے بھی پاکستان کی سا لمیت اور امن کے لیے بات کی میں اُس کو سراہتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی دلیر صحافیوں نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔وفاقی سیکریٹری فارینہ مظہر نے کہا کہ ادارہ فروغ قومی زبان کے زیراہتمام بین الاقوامی اردو صحافت کانفرنس خوش آئند اقدام ہے۔ انھو ں نے کہا کہ صحافی صحافت و ثقافت اور قومی زبان کی ترویج و فروغ کے لیے اپنی تجاویزپیش کریں۔ ہمارا ڈویژن اُن پر عمل درآمد کی بھرپور کوشش کرے گا۔افتخار عارف نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد جمہوری نظام کے نشیب و فراز کے باوجود صحافت میں پاکستانی عوام کی ترجمانی کا حق ادا کیا گیا اور جمہوریت کے اہم ستون نے ذمہ دارانہ ذریعہ ابلاغ کے طورپر اپنی شناخت قائم کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا بھر کی خبروں کے بارے میں جتنا ہمارا قاری جانتا ہے دُنیا کے کسی اور ملک کی عوام دنیا کی خبروں کے بارے میں اتنی باخبر نہیں۔مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ اُردو رابطے کی زبان ہے مگر یہ سرکاری زبان بنے نہ بنے لیکن قومی زبان ضرور ہے۔جہاں تک اُردو صحافت کا تعلق ہے اس نے مشکل حالات کے باوجود اپنی گرفت قائم رکھی ہے۔ پاکستان میں صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔انھوں نے قرار داد پیش کی کہ مقتدرہ کااصل نام بحال کیا جائے۔ انجینئر امیر مقام نے اُن کی تائید کی۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ اردو صحافت نے معاشرے کے شعور کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ پہلے ہم بی بی سی کو معتبر ذریعہ سمجھ کر خبریں لیتے تھے اب بی بی سی والے پاکستانی ذرائع ابلاغ سے خبریں حاصل کرتے ہیں۔
فریدہ حفیظ نے کہا کہ جن ادارو ں کا اس کانفرنس کے انعقاد کا کام تھا وہ نہیں کر پائے مگرادارہ فروغ قومی زبان اس کانفرنس پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج صحافت سمیت تمام ادارے بحران کا شکار ہیں مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ صحافت کا بنیادی اصول لوگوں تک صحیح پیغام پہنچانا ہے۔ انھو ںنے کہا کہ آزادی اظہار اور معاشی خوش حالی کی صحافت ہماری تاریخ میں ایک روشن باب ہے۔ جبار مرزا نے تجویز پیش کی کہ صحافیوں کی مشکلات کے حل کے لیے ایک ادارے کے قیام کی ضرورت ہے جس میں صحافیوں اور اُن کے زیرکفالت افراد کی طبی اور دیگر ضروریات کو مدنظر رکھا جائے۔ جاوید صدیق نے کہا کہ اردو صحافت کی ایک دلچسپ تاریخ ہے۔تحریک پاکستان اور قیامِ پاکستان میں اردو زونامو ں کے ساتھ ساتھ اردو رسائل و جرائد کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ ڈاکٹر فاروق عادل نے کہا کہ صحافت میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب ابلاغی اضطراب پیدا ہوتا ہے تو اس کے معاشرے پر منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ نظیرہ اعظم نے کہا کہ اُردو قومی زبان ہے او ریہ عام آدمی کے سمجھنے اور بولنے کی زبان ہے۔ اردو صحافت کے ذریعے کوئی بھی بات عام آدمی تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صحافت اور صحافی بہت سی مشکلات کا شکار ہیں ان کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
خالد عظیم چودھری نے کہا کہ کسی بھی تحریک میں صحافت ہی بہترین کردار ادا کرتی ہے۔ اُردو صحافت کا آغاز دوسو سال قبل روزنامہ جہان نما سے شروع ہواتھا۔ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان نے اردو ادب کی پسلی سے نکلی ہوئی صحافت کو پروان چڑھایا۔وحید مراد نے کہا کہ مشکل حالات کے باوجود پاکستان میں اردو صحافت کا مستقبل روشن ہے۔ عائشہ مسعود ملک نے کہا کہ اس وقت ہم ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں جس کی وجہ صحافت میں تربیت کا فقدان ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ آج میں اس ادارے کی طرف سے منعقدہ اردو صحافت کے حوالے سے اہم کانفرنس میں خود کو بطور میزبان تصور کرتی ہوں۔سید الماس حیدر نقوی نے کہاکہ ذرائع ابلاغ میں املا، تلفظ اور فصاحت و بلاغت کا لحاظ نہیں رکھا جاتا جس پر ادارہ فروغ قومی زبان صحافیوں کی تربیتی نشستوں کے ذریعے آگاہی فراہم کر سکتا ہے۔ ہم نے صحافت کو غیر ضروری کردار تفویض کیا ہے۔ صحافت کا بنیادی کردار خبر دینا ، تبصرہ اور تجزیے کے لیے فورم مہیا کرنا ہے کیونکہ صحافی کسی خاص شعبے کا ماہر نہیں ہے۔
سہیل صدیق نے کہا کہ ارود سے میرا تعلق جذباتی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اخبار کے پیچھے ایک سوچ کارفرما ہوتی ہے جو ہمیں سدھارتی بھی ہے اور سنوارتی بھی ہے،ہمیں سچی صحافت کے ذریعے نسل نو کی تربیت کرکے مثبت سوچوں کو فروغ دے کر روایت پسندی کو اپنانا ہوگا۔ اکبر خان نیازی نے کہا کہ صحافت اور ادب معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ حقیقی صحافت نے ہمیشہ اپنا راستہ نکالا۔شکیلہ جلیل نے کہا کہ آج ذرائع ابلاغ میں غلط تلفظ سے ار دوکا منہ چڑایا جا رہا ہے۔سجاد اظہر نے صحافیوں کو درپیش مسائل اور اس کے حل کے لیے تجاویز پیش کیں۔ عارف ملک نے کہا کہ صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جو رہبر ی اور رہنمائی کرنے والا اور اسی لحاظ سے صحافی معتبر اور معزز شخصیت ہوتا ہے جو سچ کا علمبردار ہوتا ہے۔