ایران سعودیہ معائدہ ،اختلافات ختم نہیں ہوئے،سعودیہ
ریاض (ویب ڈیسک ) سعودی عرب نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ معاہدے کا مطلب تمام مسائل پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ عرب اخبار الشرق الاوسط کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں مملکت کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ سعودی ایران سفارتی تعلقات کی واپسی پر چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کا مطلب یہ نہیں کہ تمام معاملات پر اتفاق رائے ہوگا بلکہ اختلافات کو بات چیت کے ذریعے دور کیا جائے گا، یہ معاہدہ سیاسی تعلقات کی بحالی کا باعث بنے گا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے دونوں ممالک کے درمیان تمام بقایا اختلافات کو حل کرنے کے لیے ایک پیج پر پہنچ گئے ہیں بلکہ ان کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ہماری مشترکہ خواہش کا ثبوت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم مملکت میں ایران کے ساتھ ایک نیا صفحہ کھولنے اور تعاون کے امکانات کو اس انداز میں بڑھانے کی امید رکھتے ہیں جو نا صرف ہمارے دونوں ملکوں بلکہ پورے خطے میں سلامتی، استحکام اور ترقی و خوشحالی کی پیش رفت پر مثبت انداز میں عکاسی کرتا ہے، میں اپنے ایرانی ہم منصب سے جلد ملاقات کا منتظر ہوں جس پر اتفاق ہوچکا ہے، ہم اگلے دو ماہ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، اس دوران دوروں کا تبادلہ ہونا فطری عمل ہے۔ایران میں جاری مظاہروں اور شہری بدامنی کے سوال پر شہزادہ فیصل نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ایران کا اندرونی معاملہ ہے، ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اس کا استحکام اور ترقی پورے خطے کے مفاد میں ہے اور ہم سعودی عرب میں صرف خیر کی خواہش کرتے ہیں۔ ایران کی اپنی جوہری صلاحیتوں کی ترقی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ بلاشبہ ایک تشویشناک مسئلہ ہے، ہم خلیجی خطے کو ہتھیاروں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے خالی کرنے کے اپنے عزم کو دہراتے ہیں اور ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں وہ اپنی جوہری ذمہ داریوں کو نافذ کرنے اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ اپنے تعاون کو تیز کرنے کا عہد کرے، ہم اس کو یقینی بنانے کے لیے اتحادیوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں ثالث کے طور پر ریاض کے کلیدی کردار پر بات کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ مملکت نے فوری انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے جو جنگ کے جاری رہنے سے متاثر ہوئی ہیں اور یوکرین کو ہماری انسانی امداد اس کے جواب میں آئی ہے، صورتحال دونوں فریقوں اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ خطرناک کشیدگی کو روکیں جس نے دونوں ممالک اور یورپ کی سلامتی کو متاثر کیا اور بین الاقوامی تعاون کی سطح کو کمزور کیا۔